...
Explained in Detail (41:9-10)
41:9
۞ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَرْضَ فِى يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُۥٓ أَندَادًۭا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ٩
Ask ˹them, O Prophet˺, “How can you disbelieve in the One Who created the earth in two Days? And how can you set up equals with Him? That is the Lord of all worlds.
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
Say, “Do you really disbelieve in the One who has created the earth in two days, and ascribe to Him partners? That is the Lord of the worlds.
— T. Usmani
Say, "Do you indeed disbelieve in He who created the earth in two days and attribute to Him equals? That is the Lord of the worlds."
— Saheeh International
41:10
وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٰسِىَ مِن فَوْقِهَا وَبَـٰرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَآ أَقْوَٰتَهَا فِىٓ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍۢ سَوَآءًۭ لِّلسَّآئِلِينَ ١٠
He placed on the earth firm mountains, standing high, showered His blessings upon it, and ordained ˹all˺ its means of sustenance—totaling four Days exactly[1]—for all who ask.
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
[1] These four Days include the first two, so the total period of creation is six heavenly Days.
He has placed firm mountains in it (the earth) towering above it, and put blessings in it, and proportioned its foods therein, in four days, equal for those who ask.
— T. Usmani
And He placed on it [i.e., the earth] firmly set mountains over its surface, and He blessed it and determined therein its [creatures'] sustenance in four days without distinction[1] - for [the information of] those who ask.
— Saheeh International
[1]- Also 'four equal days' or 'four days of completion.'
[https://quran.com/41/9-10]
The Quran explains that Allah سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى, the Creator (Khaliq) and the Lord-Sustainer (Rabb) created the earth in two days and the sustenance was determined in four days. Sustenance implies primarily food, which means biological creations, that is the flora and fauna. This totally contradicts and refutes the Theory of Evolution, as all the species and their timing of emergence were determined in these four days. So, where did the code for life come from? Allah سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى created those codes and embedded them in the materials he desired to use for creation of various types of creations. That is all the genes of all the species of flora and fauna were 'DE NOVO' at the time of creation of the Earth.
Recently, scientists are discovering 'DE NOVO Genes' which do not have any ancestral sequences to be based upon. So, they are new codes. They are the beginning of something new. We need to understand that the Creator provides the codes. It is not random, and it doesn't happen by itself. There is a Creator of these codes. We call this creator Allah. Allah is the one and only God. He originated all codes. He is the Perfect Creator who created everything good.
In Surah Ta Ha, Moses (Musa عليه السلام) is quoted thus:
Ta-Ha (20:50)
قَالَ رَبُّنَا ٱلَّذِىٓ أَعْطَىٰ كُلَّ شَىْءٍ خَلْقَهُۥ ثُمَّ هَدَىٰ ٥٠
He answered, “Our Lord is the One Who has given everything its ˹distinctive˺ form, then guided ˹it˺.”
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
He (Mūsā) said, “Our Lord is the One who gave everything its due shape, then guided it.”
— T. Usmani
He said, "Our Lord is He who gave each thing its form and then guided [it]."
— Saheeh International
Moses said, ‘Our Lord is He who gave everything its form, then gave it guidance.’
— M.A.S. Abdel Haleem
50. [Mûsâ (Moses)] said: "Our Lord is He Who gave to each thing its form and nature, then guided it aright."
— Al-Hilali &Khan
He said: "Our Lord is He1 Who gave everything its form and then guided it."2
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]That is, we acknowledge Him alone as our Lord in every sense. He is our Sustainer, our Maker, our Master, our Sovereign and is Supreme in everything, and there is no other lord in any sense but Him.
[2]This concise sentence needs serious attention. It means that it is Allah alone Who has created everything and given it its distinctive structure, form, capabilities, characteristics, etc.
He said: Our Lord is He Who gave unto everything its nature, then guided it aright.
— M. Pickthall
He said: "Our Lord is He Who gave to each (created) thing its form and nature, and further, gave (it) guidance."
— A. Yusuf Ali
موسیٰ نے کہا ، ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی۔ پھر اس کو راستہ بتایا۔ ‘
— Fe Zilal al-Qur'an
موسیٰؑ نے جواب دیا”ہمارا ربّ وہ 1 ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔“ 2
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1]یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے ، اُسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل وصورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے ، اُسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان ، نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورتِ خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔
پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا ہو ۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا اُسی نے سکھایا ہے۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اُڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے۔ درخت کو پھیل پھول دینے اور زمین کو نباتات اگانے کی ہدایت اسی نے دی ہے ۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں، ہادی اور معلّم بھی ہے۔
اِس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ ؑ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا ربّ کون ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں ربّ ہے اور کس لیے اُس کے سوا کسی اور کو ربّ نہیں مانا جا سکتا۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجودِ خاص کے لیے اللہ کا ممنون ِ احسان ہے ، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں ، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا ربّ ہے ، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا ربّ ہے، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
مزید براں، اِسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ ؑ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کر دی جس کے ماننے سے فرعون کو انکار تھا۔ ان کے دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے، اس کے عالمگیر منصبِ ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے۔ اور انسان کی شعوری زندگی کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزون نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اس کی موزوں ترین چکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے۔
[2]یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو ربّ مانتے ہیں ۔ پروردگار ، آقا، مالک، حاکم، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ ہمیں تسلیم نہیں ہے۔
جواب دیا کہ ہمارا رب وه ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راه سجھا دی.[1]
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ”راہ سجھائی“ کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔
کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل وصورت بخشی پھر راہ دکھائی
— Fatah Muhammad Jalandhari
موسیٰ ؑ ٰ نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی خلقت عطا کی پھر ہدایت دی
— (بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
کہا رب ہمارا وہ ہے جس نے دی ہر چیز کو اُسکی صورت پھر راہ سجھائی [1]
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
[1]وجود صانع کی تقریر:یعنی ہر چیز کو اس کی استعداد کے موافق شکل صورت ، قویٰ ، خواص وغیرہ عنایت فرمائے ۔ اور کامل حکمت سے جیسا بنانا چاہئے تھا بنایا۔ پھر مخلوقات میں سے ہر چیز کے وجود و بقا کے لئے جن سامانوں کی ضرورت تھی ۔ مہیا کئے اور ہر چیز کو اپنی مادی ساخت اور روحانی قوتوں اور خارجی سامانوں سےکام لینے کی راہ سمجھائی۔ پھر ایسا محکم نظام دکھلا کرہم کو بھی ہدایت کر دی کہ مصنوعات کے وجود سے صانع کے وجود پر کس طرح استدلال کرنا چاہئے۔ فلہ الحمد والمنہ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں 'یعنی کھانے پینےکو ہوش دیا۔ بچہ کو دودھ پینا وہ نہ سکھائے تو کوئی نہ سکھا سکے۔'
Moosa ne jawab diya “hamara Rubb woh hai jisne har cheez ko uski saakht bakshi(given distinctive form), phir usko raasta bataya”
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
موسیٰ نے کہا، ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی صورت عطا کی، پھر رہنمائی فرمائی
— Maulana Wahiduddin Khan
[https://quran.com/20/50]
Much of the research on DE NOVO genes is focused around the fruit fly (D. melanogaster). So, it is interesting when we come across the example of the fly (ذُبَابًۭا) in Surah alHajj:
The Pilgrimage (22:73)
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌۭ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥٓ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَن يَخْلُقُوا۟ ذُبَابًۭا وَلَوِ ٱجْتَمَعُوا۟ لَهُۥ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ ٱلذُّبَابُ شَيْـًۭٔا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ ٱلطَّالِبُ وَٱلْمَطْلُوبُ ٧٣
O humanity! A lesson is set forth, so listen to it ˹carefully˺: those ˹idols˺ you invoke besides Allah can never create ˹so much as˺ a fly, even if they ˹all˺ were to come together for that. And if a fly were to snatch anything away from them, they cannot ˹even˺ retrieve it from the fly. How powerless are those who invoke and those invoked![1]
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
[1] Another possible translation: “How weak are the seekers (i.e., the idols) and the sought (i.e., the fly)!”
O people, here is a parable set forth to you, so listen to it carefully: All those whom you invoke besides Allah can never create (even) a fly, even though they all join hands together for that. And if a fly snatches something away from them, they cannot release it from its possession. (Equally) feeble are the invoker and the invoked.
— T. Usmani
O people, an example is presented, so listen to it. Indeed, those you invoke besides Allāh will never create [as much as] a fly, even if they gathered together for it [i.e., that purpose]. And if the fly should steal from them a [tiny] thing, they could not recover it from him. Weak are the pursuer and pursued.[1]
— Saheeh International
[1]- A comparison is made here to the worshipper of a false deity and that which he worships.
People, here is an illustration, so listen carefully: those you call on beside God could not, even if they combined all their forces, create a fly, and if a fly took something away from them, they would not be able to retrieve it. How feeble are the petitioners and how feeble are those they petition!
— M.A.S. Abdel Haleem
73. O mankind! A similitude has been coined, so listen to it (carefully): Verily those on whom you call besides Allâh, cannot create (even) a fly, even though they combine together for the purpose. And if the fly snatches away a thing from them, they will have no power to release it from the fly. So weak are (both) the seeker and the sought.
— Al-Hilali & Khan
O people, a parable is set forth: pay heed to it. Those who call upon aught other than Allah shall never be able to create even a fly, even if all of them were to come together to do that. And if the fly were to snatch away anything from them, they would not be able to recover that from it. Powerless is the supplicant; and powerless is he to whom he supplicates.1
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]This parable has been cited to impress upon the idolworshipers that their deities are absolutely powerless, for even if they all collaborated to create an insignificant thing like a fly, they could not; nay, even if a fly snatched away anything from them they could not prevent it. This shows how weak they themselves are and how powerless are the idols they supplicate.
O mankind! A similitude is coined, so pay ye heed to it: Lo! those on whom ye call beside Allah will never create a fly though they combine together for the purpose. And if the fly took something from them, they could not rescue it from it. So weak are (both) the seeker and the sought!
— M. Pickthall
O men! Here is a parable set forth! listen to it! Those on whom, besides Allah, ye call, cannot create (even) a fly, if they all met together for the purpose! and if the fly should snatch away anything from them, they would have no power to release it from the fly. Feeble are those who petition and those whom they petition!
— A. Yusuf Ali
” لوگو ، ایک مثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ “
— Fe Zilal al-Qur'an
لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سُنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھُڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ 1
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1]یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالاتر طاقت کی طرف استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ مگرا س غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاٹھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ اب غور کرو کہ اُن لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور۔
لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں[1] ، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں[2] سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے واﻻ اور بڑا بودا ہے[3] وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے.
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بےجان مورتیاں ہی نہیں ہوتی تھیں، جیسا کہ آج کل قبر پرستی کا جواز پیش کرنے ولے لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ یہ عقل و شعور رکھنے والی چیزیں بھی تھیں۔ یعنی اللہ کے نیک بندے بھی تھے، جن کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا، اسی لئے اللہ عتالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ سب اکٹھے بھی ہوجائیں تو ایک حقیر ترین شے مکھی، بھی پیدا نہیں کرسکتے، محض پتھر کی مورتیوں کو یہ چیلنج نہیں دیا جاسکتا۔
[2]یہ ان کی مزید بے بسی اور لاچارگی کا اظہار ہے کہ پیدا کرنا تو کجا، یہ تو مکھی کو پکڑ کر اس کے منہ سے اپنی وہ چیز بھی واپس نہیں لے سکتے، جو وہ ان سے چھین کر لے جائے۔
[3]طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بےبسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ' اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے '۔ (صحيح بخاري، كتاب اللباس ، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صور)
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
— Fatah Muhammad Jalandhari
اے لوگو ! ایک مثال بیان کی جاتی ہے پس اسے ذرا توجہّ سے سنو یقیناً (تمہارے وہ معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ایک مکھی بھی تخلیق نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے کس قدر کمزور ہے طالب بھی اور مطلوب بھی
— (بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
اے لوگو ایک مثل کہی ہے سو اس پر کان رکھو [1] جنکو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے ہرگز نہ بنا سکیں گے ایک مکھی اگرچہ سارے جمع ہو جائیں اور اگر کچھ چھین لے اُن سے مکھی چھڑا نہ سکیں وہ اس سے بودا ہے چاہنے والا اور جنکو چاہتا ہے [2]
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
[1]شرکاء اور مشرکین کمزور ہیں:یعنی مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لیجائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو 'خالق السماوات و الارضین'کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔
[2]شرک کی مثال:یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لئے مثال بیان فرمائی جسے کان لگا کر سننا اور غوروفکر سے سمجھنا چاہئے۔ تا ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز رہو۔
Logon, ek misaal di jaati hai, gaur se suno, jin maboodon ko tum khuda ko chodh kar pukarte ho woh sab milkar ek makkhi (fly) bhi paida karna chahein to nahin kar sakte, balke agar makkhi unse koi cheez cheen le jaaye to woh usey chuda bhi nahin sakte. Madad chahne waley bhi kamzoar aur jinse madad chahi jati hai woh bhi kamzoar
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
اے لوگو، ایک مثال بیان کی جاتی ہے تو اس کو غور سے سنو، تم لوگ خدا کے سوا جس چیزکو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ سب کے سب اس کے ليے جمع ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی گئی وہ بھی کمزور
— Maulana Wahiduddin Khan
[https://quran.com/22/73]
DE NOVO genes, or DE NOVO proteins have been found in human cancer cells. Though the causes and consequences remain undiscovered, it is important to note the fundamental change in the code. Much more research remains to be done before we begin to understand what causes these disease states to happen, and what needs to be done to avoid and eliminate them.
...
Previous Posts
The Example of The Fly
The Creation & Emergence of Species